Urdu Asnaf-E-Adab Book By Ataurrahman Noori اردواصناف ِادب،مرتب:عطا ءالرحمن نوری
ایم اے،نیٹ،سیٹ،پیٹ،یوپی
ایس سی و دیگر مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے ایک معاون ماخذ، بنام
اردواصناف
ِادب،مرتب:عطا ءالرحمن نوری
مٹھی
بھر حروف
کسی بھی شعری یا نثری ادب پارے کی تفہیم،تحقیق،تدوین،تجزیے
یا تنقید کے لیے اصناف ادب کا گہرا شعور درکار ہوتا ہے۔ جب تک ایک قلم کار کا
مطالعاتی وژن پختہ نہیں ہوگااور شعری ونثری اصناف کی حقیقت سے آگاہی نہیں ہوگی وہ
کسی تحریر یا تصنیف کے متعلق فیصلہ نہیں کر سکتا کہ وہ ادب کی کس صنف میں ہے اور
اس صنف کے مبادیات کیا کیا ہیں؟اور اس لیے بھی تجزیہ، تحقیق وتنقید کا حق ادا نہیں
ہو سکتا کہ اصناف کا یہی عمیق علم فن پارے کی تعیین قدر میں معاون ہوتا ہے۔ جس طرح
کسی شاعر کو شاعری کی اصناف اور ان کے خاص اجزا کا جاننا لازمی ہے، ٹھیک اسی طرح ایک
نثر نگار کو یہ آگہی ہونی چاہیے کہ اسے کیا لکھنا ہے؟افسانوی ادب یا غیر افسانوی
ادب ؟ اول الذکر میں بھی داستان، ناول، افسانہ، افسانچہ یا کچھ اور؟ غیر افسانوی
ادب میں بھی کس قسم کو اپناتا ہے ،تحقیق کر رہا ہے یا تنقیدی تحریر لکھ رہا ہے،
سوانح تحریر کر نا ہے یا تذکرہ نگاری کا شغل اپنانا ہے،آپ بیتی لکھنا ہے یا روداد
سفر؟-
بعینہ ایک شاعر کے دل کی تختی پر جب کوئی
مفہوم اترتا ہے یا وہ کسی حیرت انگیز واقعے سے متاثر ہوتا ہے اور خیال وشعور میں
کچھ کچھ محسوس کرتا ہے تو اسے بے چینی ہوتی ہے اور وہ افکار کاغذ پر اترنے کو بے
قرار ہوتے ہیںتو یہاں رک کر اس شاعر کو یہ سوچنا ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے اندرون
بپھرنے والے طوفان اور اس کی لہروں کو کیسے سمیٹ سکتا ہے تو اسے کوئی نہ کوئی صنف
سخن متعین کرنی ہوتی ہے اور پھر قلم کے سہارے وہ دل کی بات متعینہ صنف میں کاغذ پر
اتار دیتا ہے، کبھی مثنوی کی شکل میں، کبھی قصیدہ،مرثیہ،حمد،نعت،غزل، نظم، رباعی،
شہر آشوب یا کسی اور شکل میں۔ ان اصناف شعر کا انتخاب بھی کبھی موضوع کے لحاظ سے
کرنا ہوتا ہے اور کبھی ہیئت کے لحاظ سے۔ہیئتی اور موضوعی اصناف شعر کی تقسیم بھی
کافی اہم ہے اور اس کی افادیت محتاج بیان نہیں -
متذکرہ گفتگو ایک قلم کار شاعر یا نثرنگار
کی ضرورت کے مد نظر کی گئی ہے۔ اصناف ادب کی معلومات انھیں بھی ضروری ہوتی ہے جو
کسی مقابلہ جاتی امتحان میں شرکت کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ نصابی کتب کی ضرورت
محسوس کرتے ہیں۔بسا اوقات ان کی تلاش تشنہ رہتی ہے، اب وہ کم وقت میں زیادہ
معلومات فراہم کرنے والی کسی مختصر مگر جامع کتاب کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اس لیے بھی
”اردو اصناف ادب“ مرتبہ عطاءالرحمن نوری کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اگر چہ اس موضوع پر
کافی کتابیں لکھی گئی ہیں اور کالجز، یونیورسٹیز اور تربیتی مراکز کے نصاب میں
داخل ہیں، اردو اکادمیوں نے بھی اس موضوع پر معتبر ماہرین ادب سے کتابیں لکھوائی ہیں
،انفرادی طور پر بھی بعض مصنفین نے اس موضوع کو مالامال کیا ہے۔ ان سب کے باوجود
محترم عطاءالرحمن نوری کی یہ کاوش بے حد اہم اور انتہائی مفید ہے۔یہ کتاب جہاں
نصابی ضرورتوں کی تکمیل کر ے گی وہیں شعرا وادبا کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول
کرائے گی -
عطاءالرحمن نوری ایک دہائی سے مسلسل مضامین
لکھ رہے ہیں اور رسائل و جرائد میں انھیں جگہ مل رہی ہے لیکن یہ ان کی منزل نہیں
تھی اس لیے رواں برس کو ایک یادگار بنا ڈالا اور سوانحی طرز کی تین مختصر کتابیں
اور ایک تاریخی کتاب ارباب ذوق کے مطالعے کی میز تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں-
زیر نظر کتاب ایک ادبی ضرورت بھی کہلانے کا استحقاق رکھتی ہے اور نصابی افادیت بھی
اس میں پوشیدہ ہے۔ کتاب میں عبارت آرائی سے گریز کرتے ہوئے محض کام کی باتیں تحریر
کی گئی ہیں اور کسی طرح کی تنقید یا تجزیے سے بچنے کی شعوری کوشش کی گئی، تاکہ اس
کے مطالعے سے کام کی باتیں ذہن میں محفوظ کی جائیں اور فکر وخیال میں اس کے اثرات
تابندہ رہیں- مجھے امید ہے کہ اہل ضرورت اس کتاب کو اپنی ضرورت سمجھ کر قبول کریں
گے-
مفتی توفیق احسن برکاتی ، ممبئی
(5اکتوبر2016ءبروز
بدھ)
Post a Comment