Header Ads

Lisaniyaat Ki Tareef علمِ لسانیات اور لسانیات کی تعریف


علمِ لسانیات اور لسانیات کی تعریف

پیشکش: عطاءالرحمن نوری

         لسانیات عربی کالفظ لسان سے ماخوذ ہے جس کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں جیسے:

(۱)لسانیات (Linguistics) ایک ایسا مضمون ہے جس میں انسانی زبانوں کا ، زبانوں کی موجودہ صورت کا اور زبانوں میں وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والی تبدیلیوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ 

(۲)اس علم میں مختلف زبانوں کی آپس میں مشابہت کے بارے میں مطالعہ کے ساتھ ساتھ اس چیز کا بھی مطالعہ کیا جاتا ہے کہ زبانوں کا اس دنیا کی دیگر چیزوں کے ساتھ کیا تعلق ہے،اس سے مراد زبان کا علم ہے۔

(۳) اصطلاح میں لسانیات علم کی وہ قسم ہے جو زبان کی بنیاد، اصلیت، اور اس کی ماہیت کا مطالعہ کیاجاتا ہے۔

(۴)زبان کے مختلف پہلووں کا فنی مطالعہ لسانیات کہلاتا ہے زبان کا یہ فنی مطالعہ دوزمانی بھی ہوسکتا ہے اور ایک زمانی بھی۔ دوزمانی مطالعے کی حیثیت تاریخی ہوتی ہے جس میں کسی زبان کی عہد بہ عہد ترقی یا مختلف ادوار میں اس کی نشوونما کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ایک زمانی مطالعے کی حیثیت توضیحی ہوتی ہے جس میں ایک خاص وقت یا خاص جگہ میں ایک زبان جس طرح بولی جاتی ہے اس کامطالعہ کیا جاتا ہے۔

(۵)لسانیات ایک سائنس کا درجہ رکھتی ہے اس میں زبان کا مشاہدہ کیا جاتا ہے جو کچھ انسان بولتا ہے اس کا مطالعہ مقصود ہوتا ہے اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی کہ انسان کو کیسے بولنا چاہیے۔ لسانیات میں عارضی نتائج کی تصدیق کی جاتی ہے آج زبان انسان کی انفرادی اور سماجی زندگی کی ایسی ضرورت بن چکی ہے کہ اس کے بغیر انسان کا تصور نہیں کیا جا سکتا یہاں تک کہ تمام علوم زبان ہی کے سہارے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔

         اردو میں اسم”لسان“کے ساتھ ”یات بطور لاحقہ نسبت لگانے سے لسانیات کی اصطلاح بنتی ہی۔ یہ اصطلاح اردو میں بطور اسم استعمال ہوتی ہے اور علم اللسان یا علمِ زبان کے معنوں میں مستعمل ہے۔ گویا یہ علم زبان کی تاریخ اور تشکیل کو موضوع گفتگو بناتا ہے۔ بالفاظ دیگر لسانیات میں زبان کا عمومی اور نظریاتی مطالعہ کیا جاتا ہے جس کے ذریعے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زبان کیا ہے، زبان کا نظام اور اس کے اجزاے ترکیبی (Components) کس طرح کام کرتے ہیں اوران کا باہمی ربط و عمل کیا ہے۔ اس نظریاتی مطالعے کا مقصد زبان کی مختلف سطحوں صوتیاتی، صرفی، نحوی اور معنیات کے بارے میں کلی (Universal) قواعد و اصول وضع کرنا ہے جن کا اطلاق دنیا کی زیادہ سے زیادہ زبانوں پر ہو سکے۔ جدید ماہرین لسانیات عہد حاضر کی لسانیاتی تحقیقات کی روشنی میں اب از سر نو زبان کی حقائق و معارف کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے لسانیات کی وسعت اور مقبولیت میں بڑی تیزی سی ترقی ہو رہی ہے۔ ان تفصیلات سے اندازا ہوتا ہے کہ سائنسی طریقی سے زبان کا مطالعہ لسانیات کہلاتا ہے۔ 

          علمِ لسانیات میں صوتیات( Phonetics)،علم الصوتیہ یا فونیمیات ( Phone-mics) ، صرفیات یا مارفیمیات( Morphology)،نحو( Syntax)اور معنیات ( Semantics) کوخاص اہمیت کی حامل ہیں۔ صوتیات لسانیات کی ایسی قسم ہے جس میں آواز سے متعلق بحث کی جاتی ہے اور اعضاے صوتی یعنی پھیپھڑے، حلقوم، بلعوم، حنجرہ، اعصابِ نطقی، منہ، ناک،تالو، زبان،دانت اور ہونٹ آواز کے اصل سرچشمے تصور کیے جاتے ہیں۔ لغویات یا معنویات سے مراد مطالب اور مفاہیم جاننے کا ہے ،اس میں الفاظ کو ان کے معانی کی مناسبت سے پرکھا جاتا ہے۔ اس میں مرکبِ مترادفی،مرکبِ عطفی، مرکبِ نحوی، مرکبِ فاعلی یا مشتق مرکبات سے لفظوں پر بحث کی جاتی ہے۔ دوسری طرف علمِ نحویات میں کلموں اور ان کی تبدیلیوں، جملوں کی ماہیت، ان جملوں میں کلموں کی ترتیب،مطابقت اور معنوی رشتوں کو موضوعِ بحث بنایا جاتا ہے جب کہ علمِ مارفینیات علمِ گرامر کی گردان سے متعلق ہے اُردو میں اس کے لیے ” معنیہ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاری ہے۔

         وقت کے ساتھ لسانیات میں رونما ہونے والے تغیرات کو بھی لسانیات میں زیرِبحث بنایا جاتا ہے جیسے بولیوں کے باہمی فرق و امتیاز کو تو ہم آسانی سے محسوس کر لیتے ہیں لیکن ہماری بولی یا زبانوں میں جو تغیرات ہوتے رہے ہیں انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ عموماً صوتی میڈیم پر غور نہیں کیا جاتا ،ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم وہ ہی زبان بول رہے ہیں جو ہمارے اجداد بولتے تھے مگر ایسا نہیں ہے۔ زبان ایک مستقل حیثیت تو رکھتی ہے مگر اس میں ہونے والے تصرفات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔وقت کے ساتھ زبان بھی بدلتی ہے اور لسانیاتی اختلافات وسیع ہوتے جاتے ہیں جیسے :الفریڈ کے دور کی انگریزی شیکسپئر کے زمانے تک سو سال میں خاصی بدل چکی تھی،آج کا انگریز تو اس زبان کو اجنبی سمجھتا ہے۔اُردو زبان میں بھی صوتی،صرفی،اور معنویاتی تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں۔ باغ و بہار کی زبان کو آج کی زبان میں پرکھا جائے تو بہت سے ایسے الفاظ ملتے ہیں جو اَب متروک ہو چکے ہیں۔ غالب کے استعمال کردہ بہت سے الفاظ جدید اُردو ادب کا حصہ نہیں بن سکتے ،جیسے: پوچھو ہو، آوے ہے، اودھر، گانو، پانو وغیرہ۔

این ٹی اے نیٹ /یوجی سی نیٹ مضمون اُردو کی تیاری کے لیے کتابیں ، نوٹس اورویڈ یوز کے لیے نوری اکیڈمی یوٹیوب چینل ، ویب سائٹ اور این ٹی اے نیٹ اُردو نامی ویب سائٹ کو فالو اور سبسکرائب کریں۔

..:: FOLLOW US ON ::..

https://www.youtube.com/channel/UCXS2Y522_NEEkTJ1cebzKYw
http://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg
http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg

No comments