Header Ads

Prof. Sharfun Nihar ki Hayat-O-Khidmaat پروفیسر شرف النہار : دکن کے ادبی اُفق پر علی گڑھ کا ایک بلند اور روشن ستارہ

 

 پروفیسر شرف النہار : دکن کے ادبی اُفق پر علی گڑھ  کا ایک بلند اور روشن ستارہ

 

از: عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)،مالیگاﺅں


     اُردو ادب میں خواتین کے ادبی و علمی کارناموں کا آغاز مہ لقا بائی چندا، گلنار بیگم، گنا بیگم شوخ اور ملکہ زینت محل سے ہوتا ہے۔ مسلم عہد حکومت کی ان شاعرات کے نام اور کام کو ہمارے بعض تذکرہ نگاروں اور مورخوں نے اپنی کتابوں میں محفوظ کیا ہے۔ مہ لقا بائی چندا ایک طوائف تھیں مگر وہ اس قدر قادر الکلام تھی کہ اس نے اپنا دیوان بھی ترتیب دیا تھا۔ گنا بیگم ایک بڑے رئیس کی بیٹی اور نواب عماد الملک غازی الدین خان بہادر نظام، وزیر عالمگیر ثانی کی رفیقہ حیات تھی اور ملکہ زینت محل، مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کی بیوی اور نواب حامد علی خان کی بیٹی تھی۔ ان شاعرات کی ذہانت و صلاحیت کو تذکرہ نگاروں نے سراہا ہے۔ انھوں نے اپنے کلام پر مشہور زمانہ شاعروں سے اصلاح لی۔ مثلاً گنا بیگم کے بارے میں تذکروں سے یہ ثبوت فراہم ہوتا ہے کہ وہ مرزا محمد رفیع سودا سے اپنے کلام پر اصلاح لیتی تھی۔

 

یہ بھی پڑھیں :  منصبِ تحقیق کا نادر نمونہ : ”غالب باندہ اور دیوان محمد علی “

 


    شاعری ہی کی طرح دنیاے اُردو ادب میں خواہ وہ نثر ہو یا نظم ، مردوں کے شانہ بہ شانہ مستورات نے بھی اپنی فکر ونظر کی جولانیاں بکھیری ہیں۔ اس میدان میں خواتین نے بہت کم توجہ دی ہے لیکن جنھوں نے توجہ دی ہے ان کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس اعتبار سے ممتاز شیریں ، صفیہ اختر، رشید جہاں، عصمت چغتائی ، قرة العین حیدر ، خدیجہ مستور ، جیلانی بانو، پروین شاکر، ترنم ریاض ، کشور ناہید، ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ ، صالحہ عابد حسین، زرینہ ثانی، رضیہ اکبر، صغیرہ نسیم، عطیہ نشاط، پروین عالم، ناز صدیقی، اصغر خانم، حمیرہ جلیلی، عزیز فاطمہ، آمنہ صدیقی، ڈاکٹر ام ہانی اشرف، شفیق النسا قریشی اور ثریا حسین وغیرہ نے اس میدان میں اپنی صلاحیت و فکر کا جو مظاہرہ کیا ہے وہ لائقِ تحسین ہے، ان کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ عصرِ رواں میں شاعری ، افسانہ ، ناول اور فکشن سے دو قدم آگے تنقید و تحقیق جیسے دقت طلب میدان میں اپنی کامیابی و کامرانی کے پرچم بلند کرنے والی مستورات میں محترمہ پروفیسر شرف النہار صاحبہ کا شمار بھی ہوتا ہے ۔ 

 

No photo description available.


    پروفیسر شرف النہار محقق ، نقاد، بہترین مقرر ،اعلیٰ پایہ کی اُستاد، کامیاب منتظم ،صوم و صلوٰة کی پابند اور پچیس پاروں کی حافظہ ہیں۔ آپ کا اُردو اور مراٹھی کا مطالعہ نہایت ہی وسیع ہے۔ آپ ایک ایسی استاد ہیں جو اکثر ساتھیوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی اور شاگردوں میں ہردلعزیز اور کافی مقبول ہیں۔ پروفیسر شرف النہار ایک جامع الحیثیات شخصیت کی مالک ہیں۔ آپ فارسی، اُردو اورمراٹھی زبان و ادب کا نکھرا ذوق رکھتی ہیں۔ آپ شستہ و سلیں اور عام فہم اُردو میں لیکچر دیا کرتی ہیں۔ طلبہ آپ کے لیکچرس محویت کے عالم میں سنتے ہیں، ان کے بے شمار شاگرد ہیں۔


    پروفیسر شرف النہار کی شخصیت اردو ادب میں اعلیٰ مقام رکھتی ہیں۔ وہ ایک بڑی محقق اور نقاد ہیں۔ آپ میں تحقیق و تنقید کی اعلیٰ صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی۔ انھیں علمی و ادبی حلقوں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ آپ کے مزاج کی عجز و انکساری اور خاکساری کی صفت آپ کے اُسلوب کی نمایاں خصوصیت بن گئی ہے۔ آپ کی زبان سادہ اور عام فہم ہے، آپ اپنی عبارت میں تشبیہہ و استعارہ کا استعمال نہیں کرتی ہیں۔ آپ کا اندازِ بیان منفرد اور لہجہ نرالا، شیریں اور نرم ہے ۔ ایک عام آدمی بھی آپ کی تحریریں آسانی سے پڑھ کر سمجھ سکتا ہے۔آپ نے تحقیق کو آسان بنا کر عام لوگوں میں ذوقِ تحقیق کو بیدار کیا اور لوگوں میں ادب اور کلچر سے محبت اور وابستگی بڑھادی۔


    پروفیسر شرف النہارصاحبہ، ڈاکٹر رفیق زکریا کالج فار وویمن (اورنگ آباد مہاراشٹر) میں پروفیسر تھیں، یکم جولائی 2020ء کو میڈم ریٹائر ہوئیں۔ افسوس! لاک ڈاﺅن کے سبب کسی خاص تقریب کا نظم نہیں کیا جا سکا۔ اب تک آپ کی تصنیف تالیف اور ترتیب کردہ ایک درجن سے زائد کتابیں منصہ شہود پر جلوہ گر ہو چکی ہیں۔نیز درجنوں مضامین مختلف نیشنل اور انٹر نیشنل رسائل و جرائد کے صفحات کی زینت بن چکے ہیں۔تنقید آپ کا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ نے نہ صرف اُردو کلاسیک پر قلم اٹھایا ہے بلکہ معاصر قلم کاروں اور بالخصوص ان قلم کاروں پر بھی قلم اٹھایا ہے جن پرکسی نے کام نہیں کیا یا کام ہوا مگر بہت ہی کم ۔ اُردو میں مراٹھی ادب کے تراجم پرآپ کاتحقیقی مقالہ اُردو تنقید و تحقیق کی دنیا میںایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔آ پ نے تنقید کے خارزار صحرا کو اپنا میدانِ عمل منتخب کیااور موجودہ وقت میں نئی نسل کی خاتون تنقید نگاروں میں اپنا منفرد شناخت نامہ مرتب کیا۔آج تنقید کی دنیا میں آپ کا نام اعتبار اور وقار کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ آپ کی تنقیدی تحریروں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں خلاقانہ نثر کے عناصر جا بجا نظر آتے ہیں جو ان کی تحریروں کو دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں۔

 

یہ بھی پڑھیں :   یوجی سی نیٹ امتحان اُردو مضمون کے طلبہ کے لیے اوّلین گائیڈ اینڈرائیڈ اپلی کیشن

 


    پروفیسر شرف النہار بڑی خلیق ،منکسرالمزاج ، حسن و گفتار و کردار کی حامل اور خلوص ومحبت کی پیکر خاتون ہیں۔ آپ کی ولادت بریلی شریف کے ایک سادات گھرانے میں ہوئی۔ وہیں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ بعد ازاں روہیل کھنڈ یونیورسٹی سے بی۔اے اور ایم۔ اے کیا ۔ کانپور یونیورسٹی سے بی ایڈ کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم فل میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ پروفیسر خورشید احمد کی نگرانی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ” اُردو میں مراٹھی ادب کے تراجم “ عنوان کے تحت پی ایچ ڈی کا مقالہ قلم بند کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازی گئیں۔


     اس بابت مشفق دوست و کرم فرما ڈاکٹر حسین مشاہد رضوی رقمطراز ہیں :


    ” شمالی ہندوستان کی غیر مراٹھی علاقے سے تعلق رکھنے والی اس محققہ کو اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کی تکمیل کے لیے کن دشواریوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا اس کو وہی بخوبی جان سکتی ہیں۔ مہاراشٹر اُردو اکیڈمی کو چاہیے کہ موصوفہ کے مقالے کی اشاعت ہی کا کوئی سامان پیدا کر دیں تاکہ اُردو میں مراٹھی ادب کے تراجم کے حوالے سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہوئے اس گراں قدر تحقیقی کام سے اہل مہاراشٹر ہی نہیں بلکہ دنیاے ادب بھی کما حقہ مستفیض ہو سکے۔ “ 

          (آئینہ نما، ص 13، الفاظ پبلی کیشن ، پھٹانا اولی کامٹی ضلع ناگپور)


    پروفیسر شرف النہار کو فکشن ، تحقیق و تنقید اور شاعری سے گہرا لگاﺅ ہے ۔ ان میں بالخصوص تحقیق و جستجو سے آپ کی دلچسپی قابل تحسین ہے ۔ 1997ءمیں قیامِ علی گڑھ کے دوران آپ کا اشہبِ قلم فکشن اور شاعری کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید کے میدان میں بڑی تیز رفتاری سے دوڑتا رہا ۔ چنانچہ ایک مرتبہ موصوفہ کے استاذ مشہور ادبی شخصیت پروفیسر ابو
الکلام قاسمی نے آپ سے کہا تھا : 


    ” کیا بات ہے آپ تو آج کل ہر رسالے میں زندہ ہیں ۔“ 


    پروفیسر شرف النہار نے دیانند ڈگری کالج کانپور سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ 1994ء سے 1997ء تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اُردو سے منسلک رہیں۔ 1997ء سے یکم جولائی 2020ء تک ڈاکٹر رفیق زکریا کالج فور ویمن ، نوکھنڈا ، اورنگ آباد (مہاراشٹر) کے شعبہ اُردو کی صدارت پر متمکن رہیں۔ علاوہ ازیں سابق وائس پرنسپل اورنگ آباد کالج فور ویمن ، ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر یونیورسٹی کے بورڈ آف اسٹڈیز کی رکن اور بعد میں چیئرمین ، مہاراشٹر ہسٹوریکل ریسرچ سوسائٹی اورنگ آباد کی جوائنٹ سکڑیٹری جیسے معزز عہدوں کے ساتھ ساتھ مذکورہ یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کی ریسرچ گائیڈ بھی ہیں۔

 
    پروفیسر شرف النہار صاحبہ ملازمت کے ساتھ اپنا تصنیفی و تالیفی سفر بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اُردو میں مراٹھی ادب کے تراجم (پی ایچ ڈی مقالہ) 1997ء، پنڈت سدرشن کی افسانہ نگاری کا تنقیدی جائزہ 1997ء، پنڈت سدرشن کے منتخب افسانے 2002ء، قلم گوید کے من شاہِ جہانم (تحقیقی و تنقیدی مقالات کا مجموعہ، 2009
ء)، نظیر اکبرآباد اور سنت تکارام 2013ء، بشر نواز کی شاعری 2014ء، خواجہ حیدر علی آتش (مونو گراف) 2016 ء، نظیر اکبرآبادی اور سنت تکارام کا شعری تقابل (یوجی سی پروجیکٹ) 2006ء، اُردو افسانے میں حقیقت نگاری:ترقی پسند تحریک تک (یوجی سی پروجیکٹ 2009ء) ، نثری رنگ وشعری آہنگ، جنوری 2018ء، مضرابِ ادب (مراٹھی ادب سے متعلق مضامین) 2019ء، شاہدِ معنی نے اوڑھا ہے ظرافت کا لحاف (تحقیقی وتنقیدی مضامین کا مجموعہ) 2019ء اور خواتینِ نسواں کے منتخب افسانے (راشد الخیری کے منتخب افسانے2020ء) جیسی بیش بہا اور منفرد کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ جب کہ شعراے نظم و غزل : تعار ف و تشریحات، اُردو فکشن کے رنگ : تنقید و تجزیہ کے سنگ، عالمی ڈرامہ اور ڈرامہ نگارجیسی کئی کتابیں منظر عام پر آنا باقی ہیں۔ ان کے علاوہ کئی مقالات و مضامین ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں، تا ہنوز یہ سلسلہ دراز ہے۔ یہ تمام سرگرمیاں اس لیے بھی اہم ہو جاتی ہیں کہ ایک خاتون نئی ریاست ، نئے شہر اور نئے لوگوں کے درمیان بغیر کسی خاندان کے تن تنہا اس قدر منفرد و بے بہا خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اللہ پاک مزید طاقت و قوت عطا فرمائے ۔ آمین

 
    پروفیسر شرف النہارکی کتابیں ، مضامین اور مقالات کی زبان و بیان ، طرزِ نگارش اور اسلوبیاتی لحاظ سے بھی بڑا دلکش اور پُر تاثیر ہے ۔ زبان نہایت رواں دواں ، شگفتگی اور سلاست کی آئینہ دار ہے ۔ موصوفہ کی تجزیہ نگاری اور تنقیدی شعور مستعار نہیں بلکہ خود تخیلی ہے ۔ چوں کہ آپ شاعرہ اور فکشن رائٹر بھی ہیں اس لیے آپ کے مقالات میں افسانوی رنگ وآہنگ کی گہری پرچھائیاں ابھرتی ہیں جس کی وجہ سے مضمون کے اختتام تک قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ آپ نے اپنی دل نشین مقالہ نگاری سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تحقیقی و تنقیدی مضامین بھی دلچسپ اور دل پذیر اسلوب میں لکھے جا سکتے ہیں۔ آپ نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا ہے ان سے متعلق ضروری باتوں کا مکمل احاطہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ کسی بھی مقالے میں غیر ضروری ابحاث کو جگہ نہیں دی ہے اور نہ ہی حوالوں کی جا بجا کثرت سے آپ نے اپنی تحریر کو بوجھل ہونے دیا ہے ۔
 

    آپ نے اپنی کتابوں کے انتساب میں اپنے چہیتے بیٹے ”اذہان “ کا نام اتنی چابکدستی سے استعمال کیا ہے کہ قاری کو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ مصنفہ نے ممتا کے جذبے سے بھی کام لیا ہے۔ ” مضرابِ ادب“ (مراٹھی ادب سے متعلق مضامین) کے انتساب میں آپ رقمطراز ہیں: 


” ادب کے ان محدود اذہان کے نام جو انسانیت آدمیت اور علمیت پر علاقائیت کو ترجیح دے کر حضرتِ آدم کی تذلیل کرتے ہیں۔ “


    اس ایک جملے میں ماں کی ممتا، کوتاہ ذہنوں کو درس اور قاری کے لیے انمول پیغام بھی موجود ہے۔ ”شاہدِ معنی نے اوڑھا ہے ظرافت کا لحاف“ (تحقیقی وتنقیدی مضامین کا مجموعہ) کے انتساب میں آپ لکھتی ہیں:

 
” لختِ جگر سید اذہان کے نام جو اُردو سے کوسوں دور مگر میری سانسِ نفس کے قریب تر ہیں۔ “


     علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ادبا، شعرا ، قلم کاروں کی طویل فہرست میں کچھ چنندہ اساتذہ ادب ایسے گذرے ہیں جن کی ادبی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ بالخصوص یونیورسٹی کی تاریخ میں جن خواتین کا ذکر کیا جائے گا ان میں ایک پروفیسر شرف النہار کا نام بلند اور سرفراز رہے گا جو نہ صرف علی گڑھ یورنیورسٹی کے شعبہ اردو سے منسلک رہیں بلکہ ڈاکٹر رفیق زکریا کالج فور ویمن ، نوکھنڈا ، اورنگ آباد (مہاراشٹر )کے شعبہ اُردو کی صدارت پر متمکن بھی رہیں۔ علاوہ ازیں وائس پرنسپل ،بورڈ آف اسٹڈیز کی رکن، چیئرمین ، جوائنٹ سکڑیٹری اور ریسرچ گائیڈ جیسے معزز عہدوں پر فائزبھی ہیں۔ آپ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکرمراٹھواڑہ یونیورسٹی کے ادبی اُفق پر ایک بلند اور روشن ستارہ بن کر چھائی رہیں جنھوں نے اپنی تدریس، تحقیق ، تقریر اور تحریر سے اُردو نثر کا دامن مالا مال کیا اور خصوصاً تنقید میں ایسے کارنامے انجام دیے جو ہردور کے طالب علم کے لیے مفید اور کارگرثابت ہوتے رہیں گے۔


    پروفیسر شرف النہار سرزمین بریلی میں پیدا ہوئیں اوراورنگ آباد میں بے مثال ادبی کارنامے انجام دیے۔ تخلیق ، تحقیق ، تنقید کے میدان میں قلم اُٹھایا اور اس کا حق ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آپ کے فن کی اس جدت میں جہاں آپ کے عمیق مطالعہ اور شدید مشاہدے کو بڑا دخل حاصل ہے وہیں یہ دکن کی مٹی کی دین بھی ہے کیوں کہ یہاں کے ہر فطری فن کار نے نہ صرف اپنے راستے کا خود انتخاب کیا بلکہ ادب کے دھارے کو متاثرکن انداز میں پیش کرنے کی کوشش بھی کی۔ سرزمین دکن کی خوش قسمتی ہے کہ دکن کو پروفیسر شرف النہار جیسے اُردو کے پرستار ملے۔ جنھوں نے اس زمین کی چھپی ہوئی اسرارکی عظمت سے دنیا کو روشناس کروایا۔ 23 سال کی طویل مدت سے آپ گیسوئے اُردو کو سنوارتی رہی ہیں۔ کبھی تحقیق تو کبھی تنقید اور کبھی خواتین آپ کی تخلیقات کے موضوع بنے ۔


    پروفیسر شرف النہار کی تحقیقی کاوشیں ان کے ادبی شعور کی ترجمان ہیں۔ آپ نے اردو تحقیق میں دیانتداری کا ثبوت دیا۔ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ان کی حیثیت ایک چراغ کی سی ہے جس سے طالب علموں کو روشنی ملی۔ آپ اپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجود تحقیق کے میدان میں پیچھے نہیں ہٹیں اورساری عمر ادب کی خدمت کرتی رہیں۔ آپ میں اُردو کی خدمت کی دھن سوار ہے۔ بارگاہِ صمدیت میں دعا ہے کہ اللہ پاک ایسے مخلص اُستاد کا سایہ دراز فرمائے ۔ آمین


 ٹی آر پی اور افواہوں سے دور،سچائی ، دیانت اور انصاف سے قریب ، مبنی بر حقیقت مضامین ،مقالات ، تعلیمی ، انقلابی ، معیاری اور تحقیقی و تفتیشی ویڈیوز کے لیے غیر جانبدار ادارے نوری اکیڈمی کے یوٹیوب چینل ، ویب سائٹس اور سماجی رابطے کی تمام سوشل سائٹس پر اپڈیٹ پانے کے لیے نوری اکیڈمی کو سبسکرائب ، فالو اور لائک کریں۔

..:: FOLLOW US ON ::..

https://www.youtube.com/channel/UCXS2Y522_NEEkTJ1cebzKYw
Noori Academy YouTube Channel

Noori Academy Website Urdu Version
Noori Academy Website Hindi Version

*2️⃣ Special Website for NTA NET Exam Subject Urdu By Noori Academy*


https://www.facebook.com/ataurrahman.noori/

https://www.facebook.com/Noori-Academy-731256287072325
http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg
https://www.instagram.com/atanoori92/
 

 

No comments