Header Ads

Ghalib Banda aur Diwan Mohammad Ali by Prof. Saghir Afraheim منصبِ تحقیق کا نادر نمونہ : ”غالب باندہ اور دیوان محمد علی “

 

 منصبِ تحقیق کا نادر نمونہ : ”غالب باندہ اور دیوان محمد علی “


 Dr. Sharfun Nihar Syed (M.A. B.Ed., M.Phil., Ph.D)

Ex Head Department of Urdu Dr.  R. Z. C.W. A
Ex Member of Management Council & Chairperson
Urdu BOS, Dr. B.A.M.U Aurangabad

 

    اردو کی ادبی تاریخ کے اوراق پر تحقیقی جواہر پاروں کے ان گنت خزانے بکھرے ہوئے ہیں اور نئے نئے فکری زاویوں کے ساتھ محققین ‘ بساطِ ادب پر منکشف ہورہے ہیں اور یہ عمل علم و ادب کی تیز رفتار پہچان کے لیے ایک خوش آئند قدم ہے چنانچہ اسی قدم کی ہم قدمی میں ”غالب باندہ اور دیوان محمد علی “ پروفیسر صغیر افراہیم کا وہ اچھوتا کارنامہ ہے جس نے غالب شناسی میں جہاں ایک نئے باب کا در وا کیا ہے وہیں تحقیقی امر کی فر اہمی پر غور کرتے ہوئے یہ کہنا لازم ہوجاتا ہے کہ جب تک کائنات اور اس کا فکری نظام قایم ہے یہ فن زوال کی دھول سے ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ 


    اگرچہ صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو پروفیسر صغیر افراہیم کی شخصیت اور ان کے وجدان کی تعمیر و تشکیل میں اردو فکشن کے مطالعات حصہ گیر رہے ہیں اور اس میدان میں قدم رکھتے ہوئے انھوں نے تخلیق بھی کی اور فکشن نگاروں کے فن پاروں پر تخصیص کے ساتھ تنقیدی بادیہ پیمائی کو اپنا شعار بھی بنایا ہے ۔اس سلسلے میں ان کے نگار خانہ ادب کا جائزہ لیا جائے تو ”پریم چندایک نقیب ، اردو افسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل ، نثری داستانو ں کا سفر ، اردو فکشن تنقید و تجزیہ ، اردو کا نثری ادب ، افسانوی ادب کی نئی قرات ، اردو ناول : تعریف تاریخ اور تجزیہ ، کڑی دھوپ کا سفر ”غالب باندہ اور دیوان محمد علی “ وغیرہ ہیں ۔

 

اس کے علاوہ جناب نے شعر و سخن کی وادیوں سے بھی گُل ہائے رنگیں کو چُنا اور ان کے دامن کے حسین پھولوں کے ثبوت میں ”اردو شاعری تنقید و تجزیہ “ اور جگت موہن لال رواں کی شادابی کو محسوس کیا جا سکتا ہے اور جناب کے مذکورہ نافراموش کردہ ادب سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اپنے فکری احساس اور قلمی اظہار کو ادب کے کسی محدود دائرے میں محصور کرنا پسند نہ کیا ۔


 

     گمان غالب ہے کہ ا سکی اہم وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ایک استاد کی حیثیت سے ان کا واسطہ نثری و شعری دونوں ہی اصناف سے رہا ہوگا۔ خاص بات یہ ہے کہ دونوں ہی جگہ ان کی تحریریں ‘ توازن کی بنا پر پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی گئی ہیں ۔ شاید ادبی دنیا کی شہرت و بلندی اور وقار و کردار کی ضمانت نے انھیں تازہ دم رکھتے ہوئے تحقیق کے مطالعہ صحن میں بھی عملی طور پر گھوڑے دوڑانے کا حوصلہ عطا کردیا ۔یہاں ‘ سرِ دست بات کرتے ہیں اس تحقیقی فن پارے کی ‘ جو حال ہی میں ”غالب باندہ اور دیوان محمد علی“ کے عنوان سے 2021ء میں منظرِ عام پر آیا ہے ۔ جسے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ غالباً دوصدیوں سے زائد وقت گزر جانے کے بعد بھی غالب شناسی کا عمل آج بھی ترو تازہ ہے اور غیور نظر رکھنے والے علم دوست حضرات کو ‘ کسی نہ کسی زاویے سے غالب کی ذات و صفات کا کوئی نہ کوئی تشنہ پہلو دعوتِ فکر و عمل پر آمادہ کر ہی لیتا ہے اور یہی غالب کی مقناطیسی شخصیت کا کمال ہے جس کے سحر نے پروفیسر صاحب کو بھی متاثر کیا اور ان کی تفتیش و تحقیق کے تحت ”غالب“ اپنے گمنام مکتوب الیہ دیوان محمد علی کے ہمراہ نمودار ہوگئے۔


    مذکورہ تحقیقی فن پارہ گیارہ مختصر ابواب پر مشتمل ہے محقق نے تین زاویوں یعنی غالب باندہ اور دیوان محمد علی کو اپنی فکر کا محور بنایا ہے ۔ پہلا ۔ بندیل کھنڈ کا مرکزی علاقہ ”باندہ“ ہے۔ اس خطے کی تاریخی ‘ تہذیبی و ثقافتی اور جغرافیائی صورتِ حال سے بحث کی گئی ہے۔ بالخصوص ان شواہد کو پیش کیا گیا ہے جو غالب اور باندہ کے رشتہ خاص کو پیش کررہے ہیں ۔ دراصل مذکورہ کتاب کا نیا زاویہ‘ نیا پہلو شہر باندہ اور باندہ میں مقیم رہے ”دیوان محمد علی “ ہیں جس نے محقق کو محرک العمل کیا ہے کہ غالب کی اب تک تحقیق میں ”دیوان محمد علی “ کے غالب سے مراسم اور رشتہ خاص سے آخر چشم پوشی کیوں برتی گئی ؟ لہٰذا یہی وہ نکتہ ہے جس نے تحقیقی بصیرت کے ساتھ انھیں متحرک پیکر بنا یا اس بابت وہ خود رقم طراز ہیں :


” جب جب اس مسافت (کلکتہ) کے تعلق سے میں باندہ کے ذکر پر غور کرتا تو نہ جانے کیوں ذہن میں کئی سوالات ابھرنے لگتے ہیں مثلاً ۔باندہ سے مرزا کا کیا رشتہ اور رابطہ تھا؟ وہ منزل سے مختلف راستے پر کیوں گئے؟ سفر سے پہلے اور سفر کے بعد ‘ باندہ والوں سے ان کا کیا تعلق رہا ؟ وہاں چھ ماہ کے قیام میں ان کی کیا مشغولیت رہی ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔دورانِ قیام مہیا ہونے والے پُرسکون ماحول میں غالب نے فارسی اور اردو نثر و نظم میں کیا خلق کیا؟۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وہ چھوٹے چھوٹے سوالات ہیں جنھوں نے تحیر و تجسس کو مہمیز کیا کہ دورانِ سفر کانپور اور لکھنو میں قیام کی تفصیل موجود ہے ۔ الہ آباد ۔بنارس ان شہروں کی روداد اور تاثرات باتفصیل دستیاب ہیں مگر جہاں چھ ماہ قیام کیا وہاں کے شب و روز کی تفصیل سے ہم محروم کیوں ہیں ؟ “

 

یہ بھی پڑھیں : افسانوی مجموعہ ”محسن نسواں کے منتخب افسانے “کی تقریب اجرا

 


    چنانچہ یہی وہ بنیادی سوالات ہیں جس نے ”باندہ “ سے غالب کی وابستگی اور وہاں مقیم دیوان محمد علی کے دیرینہ مراسم کی تحقیق پر انھیں آمادہ کیا ۔ محقق نے معروضی مطالعہ اور باندہ کے تعلق سے غالب کا شعری سرمایہ کے ابواب قایم کرنے میں بڑی باریک بینی سے ان شواہد و حقائق کو اور بھی واضح انداز میں پیش کرنے کا جتن کیا ہے جن پر محققین و ناقدین کی آرا میں اختلافِ رائے کے معاملات سامنے آئے ہےں ساتھ ہی ان مقامات اور شہروں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جہاں جہاں سے گزرتے ہوئے غالب نے سفر طے کیا تھا خصوصاً ورافتگی کے عالم میں وہ شہر بنارس کا موازنہ تو دہلی سے کرتے ہوئے اپنی فارسی مثنوی ‘ جو 160 اشعار پر مشتمل ہے یوں گویا ہوئے ہیں

 ”اس کے طرزِ وجود کی خوش پُرکاری پر دہلی بھی ہر لمحے درود بھیجتی ہے ۔“ 

اس کے علاوہ شہر کلکتہ کی نئی روشنی ‘ نئی طرزِ زندگی اور نئی نئی ایجادات کے ساتھ انگریزی حکام کے نظم و ضبط نے بھی انھیں متاثر کیا جس کا ذکر مکتوب الیہ کو تحریر کردہ خط کے حوالے سے ملتا ہے ۔


    دوسرا زاویہ نگاہ یہ سامنے آیا ہے کہ غالب کی شخصیت ادبِ عالیہ میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ دیارِ غیر میں بسنے والے بھی ان پر فخر کرتے ہیں نیز غالب کی ادبی زندگی سے روشنی پانے کے لیے بیشتر زبانوں نے بذریعہ ترجمہ ‘ غالب کو اپنی روح میں بسانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے ان کا یہ عمل کیوں اور کس لیے؟ تو اس کا ایک ہی جواب ملتا ہے کہ: ”غالب اپنا سا لگے ہے انھیں “ غالب کی شاعری میں انھیں اپنے دل کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں اور غالب کے اشعار انسانی رنج و راحت کا درماں بن جاتے ہیں چنانچہ غالب کے کلام کی اسی جاذبیت نے بلا تفریق مذہب و ملت ہر کس و ناکس کو اپنا گرویدہ بنایا ہے اور کسی عظیم شاعر کا خصوص ہے۔ لہٰذا س سبب سے ‘ آج برسہا برس گزرجانے کے باوجود ان کے کلام کی معنویت مسلم ہے ۔یہاں چند اشعار سے غالب کی انفرادیت اور کلام کی تر و تازگی کو آپ بھی محسوس کیجیے


رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں

قیدِ حیات و بند و غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں


    بہر حال غالب کی شاعری ہو یا نثر دونوں نے‘ لوگوں کو ہر عہد میں متاثر کیا ہے اور اگر غالب کے نثری سرمایہ خطوط کی بات کریں تو اس میں انسانی تعلقات کی ایک دنیا آباد ہے۔ کشاکشِ حیات کی خوشحالی اور بدحالی ‘ تنگی معاش کی پریشانی وغیرہ کا ہر منظر دیکھا جا سکتا ہے ۔ واضح ہو کہ غالب کی شخصیت اور خطوط دو علاحدہ چیزیں نہیں ہیں بلکہ یوں کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ خطوط ان کے بطنِ بطون تک رسائی کا معتبر ذریعہ ہیں جن میں انسان کے فکری احساس اور رشتوں کی ایک دنیا آباد ہے ۔ اس سلسلے میں پروفیسر خالد سعید کا یہ بیان غالب کے حقیقتِ حال کی ترجمانی میں سچا معلوم ہوتا ہے:


”غالب کے خطوط میں کہیں ان کے اسلاف کی باتیں ہیں تو کہیں ان کے اخلاف کا ذکر کہیں ان کے خاندان کا بیان ہے تو کہیں ان کی عظمت کا اعلان ۔۔۔۔۔۔۔۔کہیں ان کے مصائب و مسائلِ پر تو‘ کہیں تو ان کے رسوخ و وسائل کا ذکر ۔ کہیں بیانِ کثرتِ غم و اندوہ تو کہیں ذکر انبوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔کہیں ان کی تنہائی مذکور ہے تو کہیں تنہائی تصورِ جاناں سے معمور ۔۔۔۔۔۔۔۔کہیں ”پنشن“ کے لےے کاسہگدائی لیے پھرتے جارہے ہیں تو کہیں صلہ و انعام کے لیے قصیدے لکھے جا رہے ہیں ‘ کہیں اپنوں کے بچھڑنے کا غم تو کہیں مرے ہووں کا ماتم ۔“
 (پس تحریر ۔ خالد سعید ‘ پیش رفت پبلی کیشن ‘ گلبرگہ 2004 ء‘ ص80)


یہ بھی پڑھیں :   یوجی سی نیٹ امتحان اُردو مضمون کے طلبہ کے لیے اوّلین گائیڈ اینڈرائیڈ اپلی کیشن

 

    لیکن نامساعد حالات نے بھی انھیں نئی زندگی کی تعمیر و تشکیل کے لیے جدوجہد کرنا سکھایا اور سفرِ کلکتہ (باندہ) ان کے آہنی عزایم کی ایک نادر مثال ہے۔ کتابِ ہٰذا کا تیسرا مدار دیوان محمد علی اور غالب ‘ مکتوب الیہ سے ان کے تعلقِ خاطر کو ظاہر کرتا ہے ۔گمان غالب ہے کہ غالب نے جب باندہ کے لیے رختِ سفر باندھا تو اس کی سب سے اہم وجہ گزرانِ زندگی اور سفر کلکتہ کے اخراجات کے تئیں حصولِ زر کا معاملہ تھا چنانچہ ایسے حالات میں ان کی نگاہیں اپنوں کی جانب اٹھیں اور میر کرم علی کے وسیلے سے دیوان محمد علی‘ صدر امین باندہ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ غالب کی آمد سے پہلے ہی شاید ان کا شہرہ پہونچ گیا تھا جس کے سبب ”دیوان صاحب“ ان سے ملنے کے مشتاق تھے کیوں کہ وہ بھی شعر و سخن کا سنجیدہ ذوق رکھتے تھے اور بالمشافہ ملاقات کے بعد وہ غالب کے تئیں مجسم محبت و محترم اور سراپا مہربانی بن گئے چنانچہ غالب کے تحریر کردہ نامہ ہائے خلوص اس امر کا انکشاف کرتے نظر آتے ہیں کہ دیوان محمد علی کی شخصیت غالب کے حواس پر کس طرح انطباع کرچکی تھی اور کس طرح چھ ماہ کی ہمدمی اور ہم نشینی ”غالب اور باندہ “ تاریخ میں لازم و ملزوم بن گئے؟ پروفیسر صغیر افراہیم نے دیوان محمد علی کی تحقیق میں جس باب کو کتابی سرخی بنایا ہے وہ تحقیق کا جز لائنفک ہے جس میں ان کے آثار و کوائف کو بہ تفصےل منظرِ عام پر لایا گیا ہے۔


    گویا پروفیسر صغیر افراہیم نے غالب کے مکتوب الیہ کی ابتدائی زندگی کے حالات ‘ تعلیمی معاملات ‘ ملازمتی سروکار ‘ خاندانی کوائف کا ایک طویل خاکہ بڑی عرق ریزی سے پیش کیا ہے اور ان کے نسل کے خاندانی اصحاب کی علمی ‘ ادبی ‘ دینی و اتحادی ‘ سماجی اور سیاسی سرگرمیوں سے واقفیت بہم پہنچانے میں جو پہل کی ہے وہ نئی نسل خصوصاً قارئین کی معلومات میں مزید اضافے کا درجہ رکھتی ہے۔ساتھ ہی باندہ کی مٹّی کے پروردہ دیوان محمد علی کاغالب سے تین ساڑھے تین ماہ کی صحبتوں میں جو بے نام رشتہ قایم ہوا اسے ان کی انسانیت نوازی ‘ ادب پروری اور جذبہ محبی پر محمول کرنا لازم ہے کہ غالب کی دست گیری میں انھوں نے جذبہ آدمیت کو کس طرح بلند رکھا اور اس مقام پر ہم بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ


یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں

کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں


    لہٰذا غالب نے اپنے مکتوب الیہ کو ساڑھے تین ماہ کے عرصے میں 37 خطوط لکھے تھے جو صرف غالب کی رسمی معاملہ بندی کے غماز نہیں ہیں بلکہ قدر افزائی اور احسانِ گراں باری کی مثال بھی ہیں۔ کتابِ ہٰذا کے آخری تین باب ان محققینِ غالب سے عبارت ہیں جن کے اسمائے گرامی سید اکبر علی ‘ لطیف الزماں ‘ پرتو روہیلہ وغیرہ ہیں۔ یہ وہ محققین ہیں جن کے تحقیقی انکشافات ‘ غالب شناسی میں اہم رول ادا کرتے ہیں چنانچہ ان سے موصوف کو بھی خاصی مدد حاصل ہوئی ہے۔ لیکن ایک سوال‘ یہ ضرور قایم کیا کہ :غالب کی زندگی ‘ شاعری و نثر پنشن ‘ رودادِ سفر وغیرہ پر خوب گفتگو ہوئی ۔ لیکن اس مکتوب الیہ سے گریز کا پہلو کیوں برتا گیا جن کے لطف و کرم اور عنایت سے‘ غالب نے طویل قیامِ باندہ کیا‘ زادِ راہ کا انتظام ہوا اور غالب تازہ دم ہو کر کلکتے کے لیے روانہ ہوئے نیز سینتیس خطوط لکھ کر اپنے مصائب و ابتلا کے کڑے مرحلے سے آگاہ کیا اور اپنے فکری اکتسابات کو خطوط کے سانچے میں ڈھال کر ان کی نذر کیا لہٰذا تحقیقِ حال کا مدار یہی نکتہ ہے یعنی ”دیوان محمد علی کی دریافت“۔


    چنانچہ آخیر میں اس امر کا بھی انکشاف کرنا چاہون گی کہ ابھی تک پروفیسر صغیر افراہیم کو اردو ادب میں ماہرِ پریم چند پہچانا جاتا تھا لیکن ان کی تلاش و تحقیق ‘ بے تکان جاں فشانی اور تاریخی ماخذات کی فراہمی نے غالب کے ناشنیدہ مکتوب الیہ دیوان محمد علی کی دریافت میں اب انھیں غالب شناسی کی صف میں بھی لاکھڑا کردیا ہے ۔ لہٰذا قوی امید ہے کہ ان کا یہ نادر نمونہ ”غالب باندہ اور دیوان محمد علی “ نئے عندالتحقیقی تناظر میں ایک ہو شربا کاوش ثابت ہوگی ۔ (انشا اللہ )


 ٹی آر پی اور افواہوں سے دور،سچائی ، دیانت اور انصاف سے قریب ، مبنی بر حقیقت مضامین ،مقالات ، تعلیمی ، انقلابی ، معیاری اور تحقیقی و تفتیشی ویڈیوز کے لیے غیر جانبدار ادارے نوری اکیڈمی کے یوٹیوب چینل ، ویب سائٹس اور سماجی رابطے کی تمام سوشل سائٹس پر اپڈیٹ پانے کے لیے نوری اکیڈمی کو سبسکرائب ، فالو اور لائک کریں۔

..:: FOLLOW US ON ::..

https://www.youtube.com/channel/UCXS2Y522_NEEkTJ1cebzKYw
Noori Academy YouTube Channel

Noori Academy Website Urdu Version
Noori Academy Website Hindi Version

*2️⃣ Special Website for NTA NET Exam Subject Urdu By Noori Academy*


https://www.facebook.com/ataurrahman.noori/

https://www.facebook.com/Noori-Academy-731256287072325
http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg
https://www.instagram.com/atanoori92/
 

 




No comments